نئی دہلی، 27/جولائی (ایس او نیوز/ایجنسی) مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جانکاری دی ہے کہ 2019 سے 2022 کے درمیان پرائمری اور ہائیر پرائمری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی ایک بڑی تعداد نے ڈراپ آؤٹ کیا ہے۔ یہ جانکاری راجیہ سبھا میں سی پی آئی رکن سندوش کمار اور عآپ رکن ہربھجن سنگھ کے ذریعہ پوچھے گئے سوال کے جواب میں دی گئی ہے۔
وزارت تعلیم میں وزیر مملکت جینت چودھری نے بتایا کہ 22-2021 میں 1.35 فیصد طالبات نے پرائمری اسکول کو خیر باد کیا۔ یہ فیصد 21-2020 میں 0.69 اور 20-2019 میں 1.24 تھی۔ ہائیر پرائمری کی بات کی جائے تو 22-2021 میں طالبات کا ڈراپ آؤٹ 3.31 فیصد درج کیا گیا۔ یہ شرح 21-2020 میں 2.61 فیصد اور 20-2019 میں 2.98 فیصد تھی۔ ظاہر ہے پرائمری اور ہائیر پرائمری دونوں ہی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی بڑی تعداد نے 22-2021 میں تعلیم کو ترک کر دیا۔
اس معاملے میں سیکنڈری اسکول کی سطح پر حوصلہ افزا اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ دراصل 22-2021 میں سکینڈری اسکولوں سے 12.25 فیصد طالبات ڈراپ آؤٹ ہوئی ہیں، جبکہ 21-2020 میں یہ شرح 13.71 فیصد اور 20-2019 میں 15.07 فیصد تھی۔ دراصل اراکین پارلیمنٹ سندوش کمار اور ہربھجن سنگھ نے 2019 سے 2022 کی مدت میں ہندوستان کے اندر سیکنڈری، پرائمری و ہائیر پرائمری اسکولوں کو چھوڑنے والی طالبات کی تعداد پوچھی گئی تھی، اور اس کے جواب میں کچھ فکر انگیز پہلو سامنے آئے ہیں۔
وزیر مملکت جینت چودھری نے راجیہ سبھا میں یہ بھی جانکاری دی کہ طالبات کے ذریعہ اسکول چھوڑنے کی بڑی بنیادی وجوہات میں سماجی و اقتصادی مسائل شامل ہیں۔ مثلاً گھریلو آمدنی میں اضافہ کی کوشش، گھریلو کام میں حصہ لینا، پڑھائی میں عدم دلچسپی، خراب صحت، والدین کی طرف سے تعلیم کو لڑکیوں کے لیے ضروری نہ سمجھنا اور شادی وغیرہ۔
سی پی آئی رکن پارلیمنٹ سندوش کمار نے اسکولوں سے بڑی تعداد میں طالبات کے ڈراپ آؤٹ کو تشویش ناک قرار دیا اور مرکزی حکومت کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی حکومت اپنے نعرہ ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ کی اہمیت کو ختم کر رہی ہے۔ سندوش نے مزید کہا کہ ڈراپ آؤٹ کی شرح میں اضافے کی وجہ ہندوستان میں بگڑتے ہوئے سماجی و معاشی حالات ہو سکتے ہیں۔ یہاں مرکزی حکومت کا ’سمگر شکشا ابھیان‘ (سبھی کو تعلیم مہم) بھی سوالوں کے گھیرے میں آ رہا ہے، کیونکہ حکومت کے ذریعہ پیش کردہ اعداد و شمار مذکورہ مہم کی ناکامی کو بے نقاب کر رہے ہیں۔
بہرحال، مرکزی حکومت کے ذریعہ جو اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں، اس کے مطابق پرائمری اسکولوں میں 22-2021 سیشن کے دوران منی پور کی حالت سب سے خراب رہی۔ وہاں ڈراپ آؤٹ کی شرح 13 فیصد تھی۔ اس کے بعد اروناچل پردیش (9.2 فیصد)، میگھالیہ (8.6 فیصد) اور مغربی بنگال (8.3 فیصد) کا نمبر آتا ہے۔ تلنگانہ، تمل ناڈو، اڈیشہ، مہاراشٹر، کیرالہ، ہماچل پردیش، ہریانہ، گجرات، گوا، دہلی، چنڈی گڑھ، بہار اور آندھرا پردیش کی بات کریں تو یہاں ڈراپ آؤٹ صفر رہا جو خوش کن ہے۔
سیکنڈری اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہونے والی طالبات کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو 22-2021 میں مجموعی شرح گزشتہ سالوں کے مقابلے بہتر ضرور ہے، لیکن کچھ ریاستوں میں حالات فکر انگیز ہیں۔ مثلاً اڈیشہ میں سب سے زیادہ 25.2 فیصد ڈراپ آؤٹ کی جانکاری حکومت کے ذریعہ دی گئی ہے۔ اس کے بعد بہار میں 21.4 فیصد، آسام میں 20.7 فیصد، میگھالیہ میں 20.4 فیصد اور مغربی بنگال میں 17.7 فیصد طالبات نے ڈراپ آؤٹ کیا۔ محض چنڈی گڑھ اور لکشدیپ کی ایک بھی طالبہ نے سیکنڈری اسکول میں تعلیم کو ترک نہیں کیا۔ سیکنڈری اسکولوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح کیرالہ میں 4.1 فیصد، دہلی میں 3.7 فیصد، تلنگانہ میں 12.9 فیصد، کرناٹک میں 13 فیصد، مہاراشٹر میں 10.6 فیصد، اتر پردیش میں 10 فیصد اور گجرات میں 15.9 فیصد رہی۔